كوئی نیكی چھوٹی یا غیر اہم نہیں ہوتی


كوئی نیكی چھوٹی یا غیر اہم نہیں ہوتی


ہم  میں سے اكثر لوگوں كا خیال ہے كہ نیكی كوئی بہت بڑا مشكل كام ہےاور یہ سمجھتے ہیں كہ اپنے آپ كو كو مشكل میں ڈال كر اپنا نقصان كر كے ہم دوسروں كی مدد یا نیكی كیوں كریں جبكہ نیكی اپنے آپ كو مشكل میں ڈالے بغیر كسی كی مدد كر كے بھی كی جا سكتی ہے اور كئی نیكیاں ایسی بھی ہیں جو كسی كی مدد كے بغیر بھی كی جاسكتی ہیں
نیكی جو بغیر مشكل میں پڑے كی جاسكتی ہے جیسے
سلام میں پہل كرنا
كسی سے مسكرا كر بات كرنا
محفل كے ادب و آداب كا خیال ركھنا
برائی كو دل میں برا جاننا
حسن سلوك سے پیش آنا
ہر چھوٹے بڑے آدمی كی بیمار پرسی كرنا
ہمسائیوں كو تكلیف یا رنج نہ دینا
راستے سے پتھر اٹھا دینا
كسی كے گھر میں اجازت لے كر داخل ہونا
بے حیائی سے بچنا
بے ہودہ گفتگو سے بچنا
بڑوں كا احترام كرنا
خواتین كا احترام كرنا

یہ وہ كام ہیں جن كی انجام دہی كے لیے انسان كو سرمایہ لگانے كی ضروت نہیں پڑتی .  
ہماری بد قسمتی ہے كہ ہم یا تو چھوٹی چھوٹی نیكیوں كو اہمیت ہی نہیں دیتے یا پھر انہیں عبادات كے زمرے میں نہیں لاتے

                                                                                         
 مذہبی عبادات اجر و ثواب اور نیكیاں مانے جاتے ہیں لیكن اللہ تعالی نے جہاں عبادات كا حكم دیا وہاں حقوق العباد كا بھی حكم دیا  ہے .    اللہ كی عبادت میں لذت اور سرور اسی وقت میسر ہوتا ہے جب انسان حقوق العباد كی ادائیگی میں بھی كوئی كوتاہی نہ ركھتا ہو     آج كی دنیا میں اگر ہم پیچھے رہ گئے ہیں تو اس كی ایك سب سے بڑی وجہ انسانی حقوق كو پس پشت ڈال كر ان كی ادائیگی سے غفلت برت كر نمود و نمائیش كے لیے مذہبی عبادات كا اہتمام كرنا ہے 


انسانی فطرت ہے كہ وہ اپنی تعریف چاہتا ہے . وہ چاہتا ہے كہ اسے اہمیت دی جائے  . اسی سوچ كو لیے انسان كسی بڑے كارنامے كی ادائیگی كا منتظر رہتا ہے تاكہ اس كا نام اونچا ہو اور یہی آرزو لیے انسان چھوٹے چھوٹے كارنامے اور چھوٹی چھوٹی نیكیوں كو اہمیت  ہی  نہیں دیتا
اور كسی بڑی خوشی كے انتظار میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم رہتا ہے . وہ نیكیاں جنہیں وہ چھوٹا سمجھتا ہے ان كے اجر و ثواب سے  محروم رہتا ہے

اگر انسان گھر میں اس نیت سے پھول لگائے كہ اس سے اس كے گھر آنے والے مہمان خوش ہوں گے اور انہیں ایك راحت ملے گی تو یہ نیكی ہے اور اس سے اس كے گھر كی رونق  میں كوئی فرق نہیں آئے گا یعنی اجر بھی ملے گا اور رونق بھی     

سب كو یہ بات بخوبی معلوم ہے كہ ماں باپ كا چہرہ محبت سے دیكھنا بھی اجر و ثواب ہے لیكن گنتی كے لوگ ہوں گے جو ایسا كرتے ہیں بچوں سے پیار آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم كی سنت سمجھ كر كیا جائے تو نیكیاں  ہی نیكیاں یعنی اگر ہم اپنے روز مرہ كے معاملات میں نیكی اور بدی كو ڈھونڈیں تو ثواب . دانت صاف كرنا ہاتھ منہ دھونا غسل كرنا غرض كہ كئی كام سنت سمجھ كر كیے جائیں تو ہر كام پر اللہ كی عطائیں ہی ملیں گی    

كسی بھی معاشرے میں اخلاقی اقدار كو پروان چڑھانے كے لیے ایك بنیاد كی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بنیاد  وہ نیكیاں ہیں جنہیں ہم چھوٹا سمجھ كر رد كر دیتے ہیں . سلام میں پہل كرنا ایك اعلی قدر ہے جسے ہم یا تو بھلا چكے ہیں یا اسے انا كا مسلہ سمجھتے ہیں بچوں سے شفقت اور بڑوں كا احترام والی نصیحت تو سب كے زہنوں میں محفوظ  ہے لیكن اسے ہم اپنے اعمال سے ظاہر نہیں كرتے  

ہم وہ نیكیاں جنہیں ہم چھوٹا سمجھتے ہیں یا جنہیں ہم اہمیت نہیں دیتے ان كے كرنے سے كتراتے ہیں مگر وہ چھوٹے چھوٹے گناہ جن سے بچنا انتہائی آسان ہوتا ہے كر گذرتے ہیں اور پھر اپنے دوستوں میں ان كی تشہیر بھی كرتے ہیں    

  تحریر محمد نواز جنجوعہ جامی

** لانگ مارچ پر میری تحریر ** **** اب آگے كیا ہو گا ****





كچھ پانے كے لیے كچھ كھونا پڑتا ہے دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے قربانیاں دے كر آئے اگر طاہر القادری كے ساتھ اللہ كی رضا اور مدد شامل ہے تو كوئی ڈر نہیں اور اگر موجودہ صورت حال كسی سازش كا نتیجہ یا اس میں نیت كی خرابی اور ذاتی مفاد ہے تو قوم ایك اور خدائی عذاب كے لیے تیار رہے دعا ہے كہ اللہ تعالی دونوں صورتوں میں ملك پاك كو اپنی حفظ امان میں ركھے . آمین

ہر انقلابی میں جنون ہوتا ہے وہ اس جنون كو انتہا كی حد تك دیكھنا چاہتا ہے اور اس كو انتہا تك پہنچانے كے لیے ہر قیمت دینے كو تیار ہو جاتا ہے یہی اس كا خطرناك ھتیار ہوتا ہے انقلابی كو جب چیزیں اس كی مرضی كے مطابق ہوتی نظر آئیں یا اس كی ایك بات مان لی جائے تو اس كی ڈیمانڈ مذید بڑھ جاتی ہے

مذید ڈیمانڈ كا مطلب ضد بھی ہو سكتا ہے ضد بصورت ڈیمانڈ طاقت كے بل بوتے پر كی جاتی ہے اور اگر حد سے بڑھ جائے تو ٹكراؤ ہوتا ہے امید ہے حكومتی ادارے ٹكراؤ سے اجتناب كریں گے بصورت دیگر خون خرابے كا اہتمال ہے .

حكومت كی طرف سے ابھی تك  برداشت كا مظاہرہ كیا جا رہا ہے حكومتی نرمی كی ایك وجہ یہ بھی ہو سكتی ہے كہ وہ عوام كو یہ تاثر دینا چاہتی ہو كہ دیكھیے ہم نے قادری صاحب سے ہر ممكن تعاون كیا ان كی ہر بات مانی یہ بھی ہو سكتا ہے كہ حكومت نے ایك حد مقرر كی ہو كہ كہاں تك اس صورت حال كو برداشت كیا جائے

قادری صاحب  كے مخالفین بھی ان كی علمی اور دینی خدمات كے معترف ہیں دینی حلقوں میں ان كا ایك اعلی مقام ہے جمہوری اداروں میں دیكھا جائے تو اكثریت كالی بھیڑوں كی ہی نظر آتی ہے مگر قادری صاحب كا یہ اقدام بھی پارلیمانی نظام میں ایك سوالیہ نشان ہے


اگرچہ ڈاكٹر طاہر القادری كے پندرہ دن پہلے مطالبات ہر پاكستانی كی آواز ہیں مگر یہ مطالبات ساٹھ سال سے باری باری حكومت میں رہنے والے خاندانوں كے لیے زہر كے مساوی ہیں وہ لوگ جو نسل در نسل اس سسٹم كا حصہ ہیں  وہ كیسے آسانی سے ان مطالبات كو مانیں گے كہ جن كی آبیاری ہر سطح پر سركاری و نیم سركاری لوگوں كے ہاتھوں جاری و ساری ہے

اب دیكھنا یہ ہے كہ تاریخ دان قادری صاحب كے اس اقدام كو سنہری حروف میں لكھتا ہے یا اسے بھی ماضی كے نام نہاد  انقلاب كی طرح كسی كال كوٹھری  سلا دیا جائے گا

اگر قادری صاحب اس تحریك كو دو دن تك لے جانے میں كامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر نہ صرف مذید عوام اس میں شامل ہوتے جائیں گے بلكہ دیگر سیاسی جماعتیں جو حكومت سے باہر ہیں وہ بھی اس میں شامل ہو جائیں گی ایسی صورت میں حكومت كو مشكلات كا سامنا كرنا  پڑے  گا

پیپلز پارٹی اور نون لیگ كو بحرحال اس بات كا فائدہ ہو گا كہ عمران خان كی مقبولیت كا گراف كچھ نیچے چلا جائے گا 
وہ عوام جنہیں عمران خان كی شكل میں ایك نجات دہندہ نظر آتا تھا اب اسی عوام كو ایك دوسری قوت بھی نظر آ گئ ہے

آخر میں میرا غالب كی زمین میں ایك شعر

دل رولاتا ہے خون كے آنسو          كوئی اچھی خبر نہیں آتی 


 اللہ كرے كوئی اچھی خبر آئے آمین