افسانچہ.1



افسانچہ

كیسے بتاؤں كہ میں تمہارے بغیر رہ نہیں سكتا بلكہ جی نہیں سكتا ہماری یہ آنكھ مچولی آخر كب تك چلتی رہے گی كب تك ہم یونہی  ملتے رہیں گے كچھ پل كا ملنا اور پھر لمبی جدائی بار بار بچھڑنا اور آہیں بھرنا اب روز كا معمول بن گیا ہے تمھارے بغیر میری سانسیں اكھڑی اكھڑی رہتی ہیں رات دن چین نہیں آتا میری نیندیں حرام ہو چكی ہیں . مجھے اس وقت نہایت افسوس ہوتا ہے جب تم میرے گھر تو كیا ہمارے محلے تك آنا گوارا نہیں كرتی بلكہ تم غیروں كے محلے میں بڑی چمك دمك كے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہو  . غضب یہ كہ جب میں تم سے ملنے اس محلے جاتا ہوں تو تم وہاں سے بھی رفو چكر ہو جاتی ہو . میں نے اپنی آنكھوں میں كیسے كیسے خواب سجا ركھے تھے  . تمہارے لیے ایك گھر خریدا  جس میں كتنے پیارے اور قیمتی قمقمے لگوائے تمہارے لیے صرف تمہارے لیے ایئر كنڈیشن خریدا تا كہ تمہاری موجودگی میں گھر میں چین و راحت كا احساس ہو . تمھارے ساتھ كے بغیر میں كچھ بھی نہیں ہوں . كسی كام كاج میں جی نہیں لگتا بلكہ كام ہوتا ہی نہیں ہے  . كھویا كھویا سا رہتا ہوں  . میری اس حالت كو دیكھ كر مجھے نوكری سے بھی جواب مل گیا ہے . اب تو فاقوں تك نوبت آن پہنچی ہے  . در در كی ٹھوكریں كھا رہا ہوں كوئی پرسان حال نہیں ہے . تمہاری اس بے وفائی نے مجھے كہیں كا نہیں چھوڑا خدا كے لیے میری حالت پر رحم كرو اے میری پیاری بجلی میرے گھر
لوٹ آؤ 
تحریر محمد نواز جنجوعہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں