** لانگ مارچ پر میری تحریر ** **** اب آگے كیا ہو گا ****





كچھ پانے كے لیے كچھ كھونا پڑتا ہے دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے قربانیاں دے كر آئے اگر طاہر القادری كے ساتھ اللہ كی رضا اور مدد شامل ہے تو كوئی ڈر نہیں اور اگر موجودہ صورت حال كسی سازش كا نتیجہ یا اس میں نیت كی خرابی اور ذاتی مفاد ہے تو قوم ایك اور خدائی عذاب كے لیے تیار رہے دعا ہے كہ اللہ تعالی دونوں صورتوں میں ملك پاك كو اپنی حفظ امان میں ركھے . آمین

ہر انقلابی میں جنون ہوتا ہے وہ اس جنون كو انتہا كی حد تك دیكھنا چاہتا ہے اور اس كو انتہا تك پہنچانے كے لیے ہر قیمت دینے كو تیار ہو جاتا ہے یہی اس كا خطرناك ھتیار ہوتا ہے انقلابی كو جب چیزیں اس كی مرضی كے مطابق ہوتی نظر آئیں یا اس كی ایك بات مان لی جائے تو اس كی ڈیمانڈ مذید بڑھ جاتی ہے

مذید ڈیمانڈ كا مطلب ضد بھی ہو سكتا ہے ضد بصورت ڈیمانڈ طاقت كے بل بوتے پر كی جاتی ہے اور اگر حد سے بڑھ جائے تو ٹكراؤ ہوتا ہے امید ہے حكومتی ادارے ٹكراؤ سے اجتناب كریں گے بصورت دیگر خون خرابے كا اہتمال ہے .

حكومت كی طرف سے ابھی تك  برداشت كا مظاہرہ كیا جا رہا ہے حكومتی نرمی كی ایك وجہ یہ بھی ہو سكتی ہے كہ وہ عوام كو یہ تاثر دینا چاہتی ہو كہ دیكھیے ہم نے قادری صاحب سے ہر ممكن تعاون كیا ان كی ہر بات مانی یہ بھی ہو سكتا ہے كہ حكومت نے ایك حد مقرر كی ہو كہ كہاں تك اس صورت حال كو برداشت كیا جائے

قادری صاحب  كے مخالفین بھی ان كی علمی اور دینی خدمات كے معترف ہیں دینی حلقوں میں ان كا ایك اعلی مقام ہے جمہوری اداروں میں دیكھا جائے تو اكثریت كالی بھیڑوں كی ہی نظر آتی ہے مگر قادری صاحب كا یہ اقدام بھی پارلیمانی نظام میں ایك سوالیہ نشان ہے


اگرچہ ڈاكٹر طاہر القادری كے پندرہ دن پہلے مطالبات ہر پاكستانی كی آواز ہیں مگر یہ مطالبات ساٹھ سال سے باری باری حكومت میں رہنے والے خاندانوں كے لیے زہر كے مساوی ہیں وہ لوگ جو نسل در نسل اس سسٹم كا حصہ ہیں  وہ كیسے آسانی سے ان مطالبات كو مانیں گے كہ جن كی آبیاری ہر سطح پر سركاری و نیم سركاری لوگوں كے ہاتھوں جاری و ساری ہے

اب دیكھنا یہ ہے كہ تاریخ دان قادری صاحب كے اس اقدام كو سنہری حروف میں لكھتا ہے یا اسے بھی ماضی كے نام نہاد  انقلاب كی طرح كسی كال كوٹھری  سلا دیا جائے گا

اگر قادری صاحب اس تحریك كو دو دن تك لے جانے میں كامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر نہ صرف مذید عوام اس میں شامل ہوتے جائیں گے بلكہ دیگر سیاسی جماعتیں جو حكومت سے باہر ہیں وہ بھی اس میں شامل ہو جائیں گی ایسی صورت میں حكومت كو مشكلات كا سامنا كرنا  پڑے  گا

پیپلز پارٹی اور نون لیگ كو بحرحال اس بات كا فائدہ ہو گا كہ عمران خان كی مقبولیت كا گراف كچھ نیچے چلا جائے گا 
وہ عوام جنہیں عمران خان كی شكل میں ایك نجات دہندہ نظر آتا تھا اب اسی عوام كو ایك دوسری قوت بھی نظر آ گئ ہے

آخر میں میرا غالب كی زمین میں ایك شعر

دل رولاتا ہے خون كے آنسو          كوئی اچھی خبر نہیں آتی 


 اللہ كرے كوئی اچھی خبر آئے آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں