الیكشن 2013



الیكشن




مصدقہ خفیہ اطلاعات كے مطابق امسال دیر یا بدیر پیشہ ورانہ گداگروں كی تعداد میں اضافے كا امكان ہے اطلاعات كے مطابق یہ خاندانی پیشہ ور گدا گر اپنا اپنا كاسہ گدائی آرڈر پر تیار كروا رہے ہیں بڑے بڑے اثر رسوخ والے گدا گروں نے مختلف علاقوں كے كروڑوں كے حساب سے ٹھیكے بھی حاصل كر     لیے ہیں

ایك مرتبہ پھر كروڑوں كی مالیت كے بینر اشتہار چوراہوں دیواروں پر لگائے جائیں گے چھتوں دیواروں كو قیمتی بینر اور پارٹی جھنڈوں سے ڈھانپا جائے گا اور ایك غریب بچہ ننگا تن لیے ان كو حیرت اور حسرت سے دیكھے گا روزانہ كروڑوں كا كھانا اور چائے پارٹی وركروں كے لیے عیاشی كا سامان ہو گی اور دور بیٹھے غریب بچے محفل كے ختم ہونے كا انتظار كریں گے تاكہ بچے كچھے كھانے سے جو پھینك دیا جاتا ہے سے پیٹ بھر لیں اور پھر ان بچوں سے تقریروں میں  جھوٹے وعدے كیے جائیں گے كہ انہیں سر چپھانے كے لیے مكان دیا جائے گا تعلیم دی جائے گی اور پھر یہ بچے دل ہی دل میں گالی دے كر فٹ پاتھ پر سو جائیں گے

كسی بھی سیاسی جماعت سے یہ سوال كیا جائے كہ آپ كی پارٹی نے ملك كے لیے كیا  كیا تو جواب ہو گا كہ ہمیں حكومت كرنے كے لیے پورا موقع نہیں دیا گیا یا ہم تو حكومت میں آئے ہی نہیں . ان سے پوچھا جائے كہ جناب اگر راتوں رات ارب اور كھرب پتی بنا جا سكتا ہے تو راتوں رات ملكی حالات كیوں نہیں سدھارے جا سكتے

اچھا اور خوشحال پاكستان دیكھنے كی حسرت لیے كچھ لوگ تو مر گئے جو بچے ہیں وہ ہر روز مرتے ہیں لیكن عزاب پھر بھی ختم نہیں ہوتے ملك كو آئے دن [ہر حكومت ] قرضے كی دلدل میں دھنسانے  والے یہ كیوں نہیں بتاتے كہ جو قرض لیا گیا وہ كہاں كہاں استعمال ہوا ہر حكومت یہ نعرہ لگاتی ہے كہ ہمیں خزانہ خالی ملا تو پھر وہ حكومت حساب كیوں نہیں لیتی كئی حكومتوں كو كرپشن كے الزام میں برطرف كیا گیا لیكن پكڑ كسی كی بھی نہیں ہوئی


تبدیلی كی امید ہر كسی كے دل میں ہے لیكن تبدیلی كیسے ممكن ہو . ووٹ دیں تو كس كو , برسوں سے حاوی وہی چہرے وہی آزمائے ہوئے چہرے وہی لوگ جن پر بار بار كرپشن كے الزامات ہیں . وہ لوگ جو ملك كی بجائے گھر كو سنوارنے میں ترجیح دیتے آئے ہیں كیا برسوں سے چمٹے ہوئے نسل در نسل لوگوں كا اسمبلی میں پہنچنا جمہوریت ہے اگر یہ جمہوریت ہے تو پھر آمیریت اور جمہوریت میں كیا فرق ہے  


ایسے لوگوں كے ہوتے ہوئے ہم كہاں جائیں كس سے فریاد كریں یہ دو شكائیتیں آئے دن ہر كسی كی زبان پر ملتیں ہیں لیكن ووٹ پھر بھی ہم انہی لوگوں كو دیتے ہیں كیونكہ ہماری منزل بھی تو صرف اپنے بیٹے كو سفارش پر نوكری دلوانے تك محدود ہے ہم ووٹ صرف ذاتی مفاد كے لیے استعمال كرتے ہیں كہیں علاقائی اور كہیں برادری مفاد كو دیكھا جاتا ہے جب ہم ووٹ اپنے ذاتی مفاد كے لیے دیں گے تو ہمارے بے نام مسیحا بھی اپنا مفاد دیكھیں گے

اس بات كا حل كیا ہے كیسے اس ناسور ذدہ سیاسی نظام سے چھٹكارا لیا جائے اس كا جواب كسی كے پاس بھی نہیں ہے بعض لوگ تبدیلی كے لیے كسی بڑے انقلاب كی ضرورت پر زور دیتے ہیں مگر كون لائے گا یہ انقلاب . یہ جو بار بار اسمبلیوں كے مزے چھك رہے ہیں یا وہ جو صبح كا ناشتہ دبئی میں كرنے جاتے ہیں  

محمد نواز جنجوعہ جامی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں