بیچاری لنگڑی لولی جمہوریت یا دو نمبر كی
آمریت
كم و بیش ہم پر ایك ہزار سال تك مغلوں نے حكومت كی پھر انگریز بہادر تشریف لائے . ہمیں اس وقت یہ بتایا جاتا تھا كہ انگریز اور ہندو مل كر ہمیں لوٹ رہے ہیں اس لیے ہم نے اپنا ملك بنا لیا
جب سے یہ ملك بنا ہے كوئی ہمیں لوٹ رہا ہے لیكن كون یہ نہیں بتایا جاتا
الزام بھی لگتے ہیں لیكن ثابت نہیں ہوتے ایك دوسرے پر الزام لگانے والے جمہوریت كو بچانے كے لیے گلے بھی مل لیتے ہیں
جس طرح آج تك لوٹنے والے كا پتہ نہیں چل سكا اسی طرح كسی كو یہ نہیں معلوم كہ كون سی جمہوریت كو بچایا جاتا ہے كوئی كہتا ہے كہ لنگڑی لولی جمہوریت لیكن لنگڑی لولی جمہوریت كے وارثوں كو تو كبھی لنگڑا كر چلتے ہوئے نہیں دیكھا البتہ لنگڑی لولی بیچاری عوام كثرت سے مل جاتی ہے
جمہوریت كے جدی پشتی وارث جو لنگڑی لولی جمہوریت كو چلاتے ہیں ان كے خود سو سو ہاتھ اور سو سو ٹانگیں ہیں اسی لیے جب كبھی لنگڑی لولی جمہوریت كانپتی ٹانگوں سے گر جاتی ہے تو یہی وارث اس بیچاری لنگڑی لولی جمہوریت كو اكیلا چھوڑ اپنی ٹانگوں اور ہاتھوں كو استعمال كر باہر بھاگ جاتے ہیں
جب یہ اصحاب باہر ہوتے ہیں تو پیچھے ان كے كارندے اس لولی لنگڑی جمہوریت كو بیساكھیوں كا سہارا دے كر كھڑا كرتے ہیں ان كارندوں كو حكم یہ ہوتا ہے كہ اس لنگڑی لولی جمہوریت كو مكمل صحتیاب نہیں ہونے دینا كیونكہ ان كو یہ اچھی طرح معلوم ہے كہ جس دن جمہوریت صحت یاب ہو گئی اس دن یہ ان كو لنگڑا لولا كر
دی گی
پاكستان كی قومی اسمبلی پانچ سال پورے كرنے جا رہی ہے اور ہمیں ایسے لگ رہا ہے جیسے ہم كوئی ٹیسٹ میچ دیكھ رہے ہیں كیونكہ اس سے پہلے ہمیں صرف ون ڈے یا ٹی ٹونٹی ہی دیكھنے كو ملا اس بات پہ حیرت ہے كہ ابھی تك یہ معلوم نہیں ہو سكا كہ موجودہ ٹیسٹ میچ میں بیٹنگ اور باؤلنگ كس نے كی اگلا سیاسی میچ كھیلنے كے لیے كئی سیاسی ٹیمیں میدان میں اتر چكی ہیں اور ہر ٹیم اپنے كپتان كے پیچھے آمین كہنے كے لیے پہلے سے ہی ہاتھ اٹھائے چین كھڑا ہے ہر سیاسی ٹیم میچ جیتنے كے لیے پیسہ پانی كی طرح بہا رہی ہے
سیاسی پارٹیوں كے شائیقین سیاسی میچ دیكھنے كے لیے بے چین ہے وہ میچ جس كا كوئی بھی كھلاڑی میرٹ پر نہیں بلكہ رشتہ داری یا وابستگی سے سیلیكٹ ہوتا ہے وہ سیاسی تماشائی ووٹر جس كے بیٹے كو میرٹ كی سولی چڑھا كر رشوت بٹوری جاتی ہے وہی ووٹر رشوت ٹیكس اور قومی خزانہ لوٹنے والے كو بغیر میرٹ ووٹ دے كر سیلیكٹ كرتا ہے
كیا ایسا نہیں ہو سكتا كہ اب ہر تماشائی ہر كھلاڑی سے پوچھے كہ اگر ملك كے خزانےمیں پیسہ نہیں ہے اور ملك غریبی كی طرف گامزن ہے تو آپ كیسے امیر سے امیر تر ہو گئے
مصدقہ خفیہ اطلاعات كے مطابق امسال دیر یا بدیر پیشہ ورانہ گداگروں كی تعداد میں اضافے كا امكان ہے اطلاعات كے مطابق یہ خاندانی پیشہ ور گدا گر اپنا اپنا كاسہ گدائی آرڈر پر تیار كروا رہے ہیں بڑے بڑے اثر رسوخ والے گدا گروں نے مختلف علاقوں كے كروڑوں كے حساب سے ٹھیكے بھی حاصل كر لیے ہیں
ایك مرتبہ پھر كروڑوں كی مالیت كے بینر اشتہار چوراہوں دیواروں پر لگائے جائیں گے چھتوں دیواروں كو قیمتی بینر اور پارٹی جھنڈوں سے ڈھانپا جائے گا اور ایك غریب بچہ ننگا تن لیے ان كو حیرت اور حسرت سے دیكھے گا روزانہ كروڑوں كا كھانا اور چائے پارٹی وركروں كے لیے عیاشی كا سامان ہو گی اور دور بیٹھے غریب بچے محفل كے ختم ہونے كا انتظار كریں گے تاكہ بچے كچھے كھانے سے جو پھینك دیا جاتا ہے سے پیٹ بھر لیں اور پھر ان بچوں سے تقریروں میں جھوٹے وعدے كیے جائیں گے كہ انہیں سر چپھانے كے لیے مكان دیا جائے گا تعلیم دی جائے گی اور پھر یہ بچے دل ہی دل میں گالی دے كر فٹ پاتھ پر سو جائیں گے
كسی بھی سیاسی جماعت سے یہ سوال كیا جائے كہ آپ كی پارٹی نے ملك كے لیے كیا كیا تو جواب ہو گا كہ ہمیں حكومت كرنے كے لیے پورا موقع نہیں دیا گیا یا ہم تو حكومت میں آئے ہی نہیں . ان سے پوچھا جائے كہ جناب اگر راتوں رات ارب اور كھرب پتی بنا جا سكتا ہے تو راتوں رات ملكی حالات كیوں نہیں سدھارے جا سكتے
اچھا اور خوشحال پاكستان دیكھنے كی حسرت لیے كچھ لوگ تو مر گئے جو بچے ہیں وہ ہر روز مرتے ہیں لیكن عزاب پھر بھی ختم نہیں ہوتے ملك كو آئے دن [ہر حكومت ] قرضے كی دلدل میں دھنسانے والے یہ كیوں نہیں بتاتے كہ جو قرض لیا گیا وہ كہاں كہاں استعمال ہوا ہر حكومت یہ نعرہ لگاتی ہے كہ ہمیں خزانہ خالی ملا تو پھر وہ حكومت حساب كیوں نہیں لیتی كئی حكومتوں كو كرپشن كے الزام میں برطرف كیا گیا لیكن پكڑ كسی كی بھی نہیں ہوئی
تبدیلی كی امید ہر كسی كے دل میں ہے لیكن تبدیلی كیسے ممكن ہو . ووٹ دیں تو كس كو , برسوں سے حاوی وہی چہرے وہی آزمائے ہوئے چہرے وہی لوگ جن پر بار بار كرپشن كے الزامات ہیں . وہ لوگ جو ملك كی بجائے گھر كو سنوارنے میں ترجیح دیتے آئے ہیں كیا برسوں سے چمٹے ہوئے نسل در نسل لوگوں كا اسمبلی میں پہنچنا جمہوریت ہے اگر یہ جمہوریت ہے تو پھر آمیریت اور جمہوریت میں كیا فرق ہے
ایسے لوگوں كے ہوتے ہوئے ہم كہاں جائیں كس سے فریاد كریں یہ دو شكائیتیں آئے دن ہر كسی كی زبان پر ملتیں ہیں لیكن ووٹ پھر بھی ہم انہی لوگوں كو دیتے ہیں كیونكہ ہماری منزل بھی تو صرف اپنے بیٹے كو سفارش پر نوكری دلوانے تك محدود ہے ہم ووٹ صرف ذاتی مفاد كے لیے استعمال كرتے ہیں كہیں علاقائی اور كہیں برادری مفاد كو دیكھا جاتا ہے جب ہم ووٹ اپنے ذاتی مفاد كے لیے دیں گے تو ہمارے بے نام مسیحا بھی اپنا مفاد دیكھیں گے
اس بات كا حل كیا ہے كیسے اس ناسور ذدہ سیاسی نظام سے چھٹكارا لیا جائے اس كا جواب كسی كے پاس بھی نہیں ہے بعض لوگ تبدیلی كے لیے كسی بڑے انقلاب كی ضرورت پر زور دیتے ہیں مگر كون لائے گا یہ انقلاب . یہ جو بار بار اسمبلیوں كے مزے چھك رہے ہیں یا وہ جو صبح كا ناشتہ دبئی میں كرنے جاتے ہیں